کیا عجب لوگ ہیں اور کیسی دعا مانگتے ہیں
رب سے سب کچھ ہی مگر رب کے سوا مانگتے ہیں
نیکیاں کرتے ہیں بس وہ جو موافق آئیں
اور پھر ان پہ جزا حسبِ رضا مانگتے ہیں
دیکھ کر حضرتِ انسان کی یہ بے قدری
مانگنے والے بھی بس بہرِ خدا مانگتے ہیں
میں کئی سال سے بوسیدہ پڑا ہوں گھر میں
پر یہ بچے مجھے ہر روز نیا مانگتے ہیں
لامکاں' سُن کے نہیں ان کی تشفّی ہوتی'
اب تو یہ لوگ ترے گھر کا پتہ مانگتے ہیں
صرف سادہ ہی نہیں رنگ کے اندھے بھی ہیں لوگ
دستِ خونریز سے جو رنگِ حنا مانگتے ہیں
ہم سے معمول کی حاجات نہ روئی جائیں
مانگنے پر کبھی آئیں تو جُدا مانگتے ہیں
اک محبت کی نظر، پیار کے دو بول بہت
ہم فقیر اور بھلا آپ سے کیا مانگتے ہیں
پہلے جتلاتے ہیں لوگ اپنی وفائیں احمد
اور پھر ہم سے وفاؤں کا صلہ مانگتے ہیں
احمد نواز
No comments:
Post a Comment