زندگی باقی ہے اب دو چار دن
گن رہا ہے یہ تِرا بیمار دن
شوخیوں سے کیجئے پامال دل
ہیں تمہارے ناز کے سرکار دن
وہ جو تھے عہد جوانی کے مِری
کیسے گزرے برق کی رفتار دن
آپ نے جب سے نگاہیں پھیر لیں
ہو گئے ہیں کاٹنے دشوار دن
تم الٹ دو اپنے رخ سے جو نقاب
ہو شبستاں میں ابھی بیدار دن
اشک پیتے ہیں یہ بادے کی جگہ
کاٹتے ہیں اس طرح مے خوار دن
عید کے دن مل رہے ہیں وہ گلے
ایسا آئے دن میں سو سو بار دن
در پہ ہیں نظریں کبھی ہیں بام پر
یوں گزرتا ہے تہہ دیوار دن
سنگ دل اتنی بھی اے شیریں نہ بن
کوہ کن کاٹے سر کہسار دن
تم بہم شیر و شکر ہو کر رہو
یوں گزارو کافر و دیں دار دن
انتظار یوسف دل دار میں
روز گزرے ہے سر بازار دن
یاد بت ہے اور قشقہ بر جبیں
کاٹتا ہوں باندھ کر زنار دن
جب سے سودا چشم و ابرو کا ہوا
تیر ہیں راتیں مجھے تلوار دن
زندگی جوہر تھی جب رشک بہار
واہ کیا اپنے تھے وہ گلزار دن
جوہر دیوبندی
No comments:
Post a Comment