یہی نہیں ہے کہ شانوں سے خون بہتا ہے
ابھی تو اپنی میانوں سے خون بہتا ہے
وہ گال سرخ ہوئے ہوں تو یوں لگیں جیسے
سفید ریشمی تھانوں سے خون بہتا ہے
یہ خامشی وہ بلا ہے کہ چیخ اٹھے اگر
تو سننے والوں کے کانوں سے خون بہتا ہے
ہمارے خواب پٹکتے ہیں یوں ہمارے سر
تمام رات سرہانوں سے خون بہتا ہے
وہ جنگ جیت کے اونٹوں کا رخ بدلنے لگے
ابھی تو ان کی مچانوں سے خون بہتا ہے
یہ اپنے دور کے سب سے بڑے منافق ہیں
اسی لیے تو زبانوں سے خون بہتا ہے
تمام وقت گزرتا ہے زخم سہلاتے
طرح طرح کے بہانوں سے خون بہتا ہے
ہمیں تو علم سکھایا نہیں ہے تھونپا ہے
ہمارے علمی خزانوں سے خون بہتا ہے
نہ جانے کتنے زمانے گزر گئے ساحر
نہ جانے کتنے زمانوں سے خون بہتا ہے
جہانزیب ساحر
No comments:
Post a Comment