Tuesday, 22 February 2022

یہی نہیں ہے کہ شانوں سے خون بہتا ہے

 یہی نہیں ہے کہ شانوں سے خون بہتا ہے

ابھی تو اپنی میانوں سے خون بہتا ہے

وہ گال سرخ ہوئے ہوں تو یوں لگیں جیسے

سفید ریشمی تھانوں سے خون بہتا ہے

یہ خامشی وہ بلا ہے کہ چیخ اٹھے اگر

تو سننے والوں کے کانوں سے خون بہتا ہے

ہمارے خواب پٹکتے ہیں یوں ہمارے سر

تمام رات سرہانوں سے خون بہتا ہے

وہ جنگ جیت کے اونٹوں کا رخ بدلنے لگے

ابھی تو ان کی مچانوں سے خون بہتا ہے

یہ اپنے دور کے سب سے بڑے منافق ہیں

اسی لیے تو زبانوں سے خون بہتا ہے

تمام وقت گزرتا ہے زخم سہلاتے

طرح طرح کے بہانوں سے خون بہتا ہے

ہمیں تو علم سکھایا نہیں ہے تھونپا ہے

ہمارے علمی خزانوں سے خون بہتا ہے

نہ جانے کتنے زمانے گزر گئے ساحر

نہ جانے کتنے زمانوں سے خون بہتا ہے


جہانزیب ساحر​

No comments:

Post a Comment