Tuesday, 22 February 2022

مرے عزیز مرے دل سنبھل نہیں ہوتا

 مِرے عزیز، مِرے دل، سنبھل، نہیں ہوتا

کوئی بھی شخص یہاں بےبدل نہیں ہوتا 

یہ دل جو تیرے تغافل سے تھکتا جاتا ہے

غمِ حیات اٹھانے سے شل نہیں ہوتا 

ہمیں بڑوں کے سکھائے سبق نے مارا ہے

ہمارے صبر کے بدلے میں پھل نہیں ہوتا

وچن کی لاج، وفا کا لحاظ، عہد کا پاس 

سُنا تھا، ہوتا ہے، پر آج کل نہیں ہوتا

تِرے سوال نشانے پہ ٹھیک لگتے ہیں

مِرا جواب کبھی بر محل نہیں ہوتا

کبھی تو تُو بھی طبیعت پہ بوجھ لگتا ہے

کبھی تو تُو بھی جوازِ غزل نہیں ہوتا 

تمہیں جو حال سنائیں، تو کس لیے، مِرے دوست

تمہارے پاس بھی الجھن کا حل نہیں ہوتا


سیماب ظفر

No comments:

Post a Comment