اک موت بھری خاموشی میں
دل گھڑی گھڑی گھبراتا ہے
ویرانی کے گھر کرنے سے
بے کار کے جینے مرنے سے
کوئی لہر نہ ہو جس مٹی میں
اور لالی ہو جس پانی میں
وہ دریا پار اترنے سے
امید کے آخری کونے سے
اس زینت سے خوش پوشی سے
جو ماندہ ہے فرسودہ ہے
جو اندر کاٹتی رہتی ہے
اک موت بھری خاموشی میں
اس رنگ برنگی دنیا میں
تکرار ہے اپنے ہونے کی
سب جھگڑا ہے آوازوں کا
ان مِلی جُلی آوازوں میں
ہم ایک وجودی قصہ ہیں
ہم اپنی اپنی بولی ہیں
ہم اپنا اپنا حصہ ہیں
اس رنگ برنگی دنیا میں
اِک خواب کے اندر پنجرے میں
یہ دل بھی ایک تماشا ہے
جو کبھی کبھی گھبراتا تھا
اب گھڑی گھڑی گھبراتا ہے
اُس شب کے پہرے داروں سے
جو گرتے بھاگتے رہتے ہیں
اک دبی دبی مدہوشی میں
فرخ یار
No comments:
Post a Comment