Tuesday 22 February 2022

دل گھڑی گھڑی گھبراتا ہے

 اک موت بھری خاموشی میں


دل گھڑی گھڑی گھبراتا ہے

ویرانی کے گھر کرنے سے

بے کار کے جینے مرنے سے

کوئی لہر نہ ہو جس مٹی میں

اور لالی ہو جس پانی میں

وہ دریا پار اترنے سے

امید کے آخری کونے سے

اس زینت سے خوش پوشی سے

جو ماندہ ہے فرسودہ ہے

جو اندر کاٹتی رہتی ہے

اک موت بھری خاموشی میں

اس رنگ برنگی دنیا میں

تکرار ہے اپنے ہونے کی

سب جھگڑا ہے آوازوں کا

ان مِلی جُلی آوازوں میں

ہم ایک وجودی قصہ ہیں

ہم اپنی اپنی بولی ہیں

ہم اپنا اپنا حصہ ہیں

اس رنگ برنگی دنیا میں

اِک خواب کے اندر پنجرے میں

یہ دل بھی ایک تماشا ہے

جو کبھی کبھی گھبراتا تھا

اب گھڑی گھڑی گھبراتا ہے

اُس شب کے پہرے داروں سے

جو گرتے بھاگتے رہتے ہیں

اک دبی دبی مدہوشی میں


فرخ یار 

No comments:

Post a Comment