زندگی پروفائی کی ٹھیری
پھر ہمیشہ جدائی کی ٹھیری
نسبتِ جان و دل ہوئی برباد
پھر فقط آشنائی کی ٹھیری
جان و دل کا تھا ایک رمز جو تھا
آخرش جگ ہنسائی کی ٹھیری
رہے پہلے وفا سراپا ہم
اور پھر بے وفائی کی ٹھیری
ہم تھے اک دوسرے کے پہلو میں
پھر میاں! نارسائی کی ٹھیری
ہم جو تھے ایک جان تھے دونوں
کہ اچانک لڑائی کی ٹھیری
میں اسے جان کر نہ پہچانا
ہجر میں بھی کمائی کی ٹھیری
ہم حسینوں میں نا قبول ہوئے
سو میاں پارسائی کی ٹھیری
آخرش اس کو ہم نے کھینچ لیا
بات اس کی کلائی کی ٹھیری
ہوئے برباد آدم و ابلیس
جب ازل میں خدائی کی ٹھیری
آپ مِلتے نہیں ہیں ملیے تو
اِس قدر کیوں برائی کی ٹھیری
وہ حیا تھا، حیا کی جان تھا وہ
اور پھر بے حیائی کی ٹھیری
تھا سروں میں بھلائی کا سودا
جانے پھر کیوں بُرائی کی ٹھیری
شہر ہم کو ذرا نہیں بھائے
آخرش بادپائی کی ٹھیری
ہم کو گھر چاہیے تھا، جو نہ ملا
سو میاں! ناکجائی کی ٹھیری
کیا ازل، کیا ابد، میاں جی میاں
آن اک انتہائی کی ٹھیری
بیچ گھر اپنے کِھنچ گئی دیوار
پھر فقط اک دمائی کی ٹھیری
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment