ہر گھڑی مجھ پہ رواں ایسا ستم رکھا ہے
شہر والوں نے مِری آنکھ کو نم رکھا ہے
میں نے اک عمر سرِ راہ بچھائی پلکیں
اس نے پھر جا کے مِرے گھر میں قدم رکھا ہے
ضبط ٹوٹا ہے مگر اشک نہیں بہنے دئیے
ہم نے بس یار! محبت کا بھرم رکھا ہے
پیٹ بھرنا تھا مجھے کنبے کا اپنے لوگو
بیلچہ میں نے اٹھایا ہے، قلم رکھا ہے
طاہر تنولی
No comments:
Post a Comment