تمہارے خواب کی تعبیر ہونا چاہتا ہوں
مجھے دیکھو کہ میں تسخیر ہونا چاہتا ہوں
جہاں گردی مجھے چوکھٹ سے باہر کھینچتی ہے
میں اپنے پاؤں کی زنجیر ہونا چاہتا ہوں
مجھے جھوٹی ہنسی نے کھوکھلا سا کر دیا ہے
کوئی دن کے لیے دلگیر ہونا چاہتا ہوں
اٹھائے پھر رہا ہوں کب سے اپنے خال و خط کو
تِری دیوار پر تصویر ہونا چاہتا ہوں
کسی اگلے زمانے میں کھلیں گے میرے معنی
ہوا کی لوح پر تحریر ہونا چاہتا ہوں
مجھے شہزاد!! میرے کیمیا گر سے ملا دو
میں مٹی ہوں، مگر اکسیر ہونا چاہتا ہوں
شہزاد بیگ
No comments:
Post a Comment