Tuesday, 22 February 2022

دل سے جو یاد بھی اس شخص کی رخصت ہو جائے

 دل سے جو یاد بھی اس شخص کی رخصت ہو جائے

ہجر یوں انت مچائے؛ کہ قیامت ہو جائے

دشت در دشت سرابوں میں نہائے ہوئے حسن

تُو مِرے ہاتھ میں آئے تو حقیقت ہو جائے

مانگتی پھرتی ہے گلیوں کی اداسی یہ دعا

شہر پر کاش بیاباں کی حکومت ہو جائے

روح درویش، بدن خاک سا ہو جاتا ہے

عام لوگوں سے اگر خاص محبت ہو جائے

خود کشی کیجیے وحشت میں مگر یاد رہے

یوں نہ ہو اہلِ جنوں میں یہ روایت ہو جائے

اشک اک دوسری چاہت کے حوالے کر دوں

کچھ ترے ہجر سے اے یار خیانت ہو جائے

تُو خدا ہے، نہ پیمبر، نہ فرشتہ کوئی

پھر مجھے کیسے بتا تجھ سے عقیدت ہو جائے

عشق کرنا ہے مجھے جیتے ہوئے یوں حیدر

کچھ نہیں تو یونہی مرنے کی ریاضت ہو جائے


فقیہہ حیدر

No comments:

Post a Comment