اس رخ پہ پھر گلاب سے کھلنے لگے تو ہیں
اے چشمِ اشتیاق! تِرے دن پھرے تو ہیں
کچھ اہتمامِ رونقِ مے خانہ ہے ضرور
ٹھنڈی ہوا چلی تو ہے بادل گھرے تو ہیں
لو اب تو آئی منزل جاناں سے بوئے خوش
کچھ ٹھوکریں لگی تو ہیں کانٹے چبھے تو ہیں
گلشن کی خیر ہو تو گوارا قفس ہمیں
اڑتی سی ہے خبر کہ نئے گل کھلے تو ہیں
تکفیر سے نہ جس کی بچا ایک رند بھی
اس زہد سے بھی مکر کے پردے اٹھے تو ہیں
اپنے نیاز مند کے صدق و صفا کو وہ
یوں مانتے نہیں ہیں مگر جانتے تو ہیں
پھر مسندِ قضا پہ ہوا ظلم جلوہ گر
تعزیرِ جرمِ عشق کے ساماں ہوئے تو ہیں
اس دور کے ظلام میں سورج بھی گم سہی
ساتھ اپنے داغ ہائے کہن کے دیے تو ہیں
نعیم صدیقی
No comments:
Post a Comment