بسی آنکھوں میں شبنم ہے محبت ہو گئی ہو گی
ہنسی ہونٹوں پہ مدھم ہے محبت ہو گئی ہو گی
مجھے جاتے ہوئے سورج نے سونپے رتجگے اتنے
یہی غم بھی تو کیا کم ہے محبت ہو گئی ہو گی
جہاں پر خاک اُڑتی تھی ابھی تک تیری چاہت کی
زمیں وہ پیار کی نم ہے محبت ہو گئی ہو گی
کسی کے ظرف نے مجھ کو دیا ہے یہ ہنر کیسا
مِرا لہجہ جو مدھم ہے محبت ہو گئی ہو گی
محبت نام آتے ہی تِری ہچکی سی بندھ جانا
اثر کیسا یہ ہم دم ہے محبت ہو گئی ہو گی
یہاں تم بھی اکیلے ہو یہاں ہم بھی اکیلے ہیں
بہت رنگین موسم ہے محبت ہو گئی ہو گی
تِری باتوں کو سن کر چل دئیے محفل سے سب اٹھ کر
مگر زبدہ تو برہم ہے محبت ہو گئی ہو گی
زبدہ خان
No comments:
Post a Comment