کہتی ہے خود شفق کی زباں سے یہ شام سرخ
برپا زمیں پہ ہو کے رہے گا نظامِ سرخ
لائے گی رنگ گردشِ آفاق بھی ضرور
ہم تک کبھی تو بزم میں پہنچے گا جام سرخ
پرچم ہمارا سرخ اسی واسطے سے ہے
لینا ہے اہلِ زر سے ہمیں انتقام سرخ
ابھرا بساطِ شرق سے ایک سرخ دائرہ
لائی ہے ظلمتوں کے لیے صبح دام سرخ
اب مےکدے میں آئے تو یوں انقلاب آئے
تشنہ لبوں کے ہاتھ میں ہو انتظام سرخ
بس اک ذرا سا صبر کہ اے تشنگانِ شوقِ
ہونے کو مے کدے میں ہے اب اذن عام سرخ
رگ رگ میں خون سرخ کی گرمی ہے موجزن
ثابت ہے اس دلیل سے خالد دوام سرخ
خالد علیگ
No comments:
Post a Comment