تیری چاہت کی صلیبوں سے اُتارے ہوئے لوگ
در بدر پھرتے ہیں تنہائی کے مارے ہوئے لوگ
اب بھی شاداب ہیں ہم، تیری محبت کے طفیل
ایسے ہوتے تو نہیں ہجر گزارے ہوئے لوگ
ورنہ تو گردِ زمانہ میں دبے رہتے ہیں
زیست کے آئینہ خانوں میں سنوارے ہوئے لوگ
جتنی دوری میں کشش ہے وہ رفاقت میں نہیں
آنکھ سے دور ہوئے، اور بھی پیارے ہوئے لوگ
حال جیسا بھی سہی، سانس تو جاری ہے ابھی
دیکھ! زندہ ہیں تِرے عشق میں ہارے ہوئے لوگ
زخم جو دل کو لگے،۔ ان کی بدولت ساجد
صبح کو پھول بنے، شب میں ستارے ہوئے لوگ
اعتبار ساجد
No comments:
Post a Comment