Friday, 25 February 2022

جھمکتے جھومتے موسم کا دھوکا کھا رہا ہوں میں

 جھمکتے جھومتے موسم کا دھوکا کھا رہا ہوں میں

بہت لہرائے ہیں بادل،۔ مگر پیاسا رہا ہوں میں

تنی جب دھوپ کی چادر مِرے سر پر تو کیا ہوگا

درختوں کے گھنے سائے میں بھی سنولا رہا ہوں میں

وہی کچھ کر رہا ہوں جو کیا میرے بزرگوں نے

نئے ذہنوں پہ اپنے تجربے برسا رہا ہوں میں

یہ تہمت خاک تہمت ہے، میرے ہم جرم ہمسایو

تمہاری عمر میں تم سے کہیں رسوا رہا ہوں میں

خیال آتا ہے بازاروں کی رونق دیکھ کر مجھ کو

بھرے دریا میں تنکا بن کے بہتا جا رہا ہوں میں

تِری آغوش چھُوٹی تو ملی وہ بد دعا مجھ کو

کہ اب اپنی ہی باہوں میں سمٹتا جا رہا ہوں میں

قتیل اب تک ندامت ہے مجھے ترکِ محبت پر

ذراسا جرم کر کے آج بھی پچھتا رہا ہوں میں


قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment