جو پری زاد ملنسار ہوا کرتے ہیں
کیسی چلتی ہوئی تلوار ہوا کرتے ہیں
ظلم کرنا ہی فقط آپ نے سیکھا ہے یا
مہربان بھی کبھی سرکار ہوا کرتے ہیں
مشق کرنے سے ہی ہوتی ہے مہارت پیدا
سچے عاشق بھی اداکار ہوا کرتے ہیں
طور پر ہی نہیں صرف آنکھ مچولی کا رواج
ہر جگہ طالبِ دیدار ہوا کرتے ہیں
رب کی تقدیر نویسی میں تعسب کیسا
لوگ خود بخت کے معمار ہوا کرتے ہیں
اے نسیمِ سحری دھوپ تو چڑھ لینے دے
دلربا دیر سے بیدار ہوا کرتے ہیں
خضر و عیسیٰ کو بھی ملتی ہیں شفائیں جن سے
وہ تیرے کاکل و رخسار ہوا کرتے ہیں
صرف چلنے کی خوشی تحفۂ منزل ہے عدم
راستے تو سبھی دشوار ہوا کرتے ہیں
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment