Saturday, 5 March 2022

خود منظر تخلیق کروں گا خود اس میں کھو جاؤں گا

 خود منظر تخلیق کروں گا خود اس میں کھو جاؤں گا

تیرے بعد اب ایسے اپنے آپ میں گم ہو جاؤں گا

مجھ کو پاگل کہنے والے یاروں کو معلوم نہیں

گھر کا رستہ یاد ہے مجھ کو شام ڈھلی تو جاؤں گا

بھولی بسری یادوں والی وحشت آن جھنجھوڑے گی

اٹھ کر اک انجانے خوف کے پہلو میں سو جاؤں گا

اس بستی کے قحط زدہ مایوسی مارے کھیتوں میں

سبز رُتوں کی امیدوں کے بیج کئی بو جاؤں گا

اپنی لاش اٹھانا ہو گی اپنے بے بس کندھوں پر

سناٹے سے ڈرتی مرتی گلیوں میں جو جاؤں گا

ہر رستے پر بیٹھ کے ثاقب! آتے جاتے لوگوں کے

ہر چہرے کے پیچھے پیچھے اُس چہرے کو جاؤں گا


عباس ثاقب

No comments:

Post a Comment