خود منظر تخلیق کروں گا خود اس میں کھو جاؤں گا
تیرے بعد اب ایسے اپنے آپ میں گم ہو جاؤں گا
مجھ کو پاگل کہنے والے یاروں کو معلوم نہیں
گھر کا رستہ یاد ہے مجھ کو شام ڈھلی تو جاؤں گا
بھولی بسری یادوں والی وحشت آن جھنجھوڑے گی
اٹھ کر اک انجانے خوف کے پہلو میں سو جاؤں گا
اس بستی کے قحط زدہ مایوسی مارے کھیتوں میں
سبز رُتوں کی امیدوں کے بیج کئی بو جاؤں گا
اپنی لاش اٹھانا ہو گی اپنے بے بس کندھوں پر
سناٹے سے ڈرتی مرتی گلیوں میں جو جاؤں گا
ہر رستے پر بیٹھ کے ثاقب! آتے جاتے لوگوں کے
ہر چہرے کے پیچھے پیچھے اُس چہرے کو جاؤں گا
عباس ثاقب
No comments:
Post a Comment