بُت گر کو جیسے پیار ہے اپنے بتوں کے ساتھ
رغبت ہمیں بھی رہتی ہے ان مہ رخوں کے ساتھ
جس نے بھی دیکھا ہاتھ وہ ملتے ہی رہ گیا
گُلچیں نے ایسا ہاتھ کیا ہے گُلوں کے ساتھ
کب تک غریبِ شہر کی میت پہ چُپ رہیں
اب مل کے ہم بھی روئیں گے نوحہ گروں کے ساتھ
واعظ کی بد کلامی سے سب لوگ تنگ ہیں
کب تک کوئی نباہ کرے سر پھروں کے ساتھ
آدابِ مے کشی کا نہ جن کو ہو احترام
کیسے میں میکشی کروں اُن میکشوں کے ساتھ
رہبر میں راہزن میں تو تفریق ہی نہیں
رہبر کی ساز باز ہے اب رہزنوں کے ساتھ
یہ دل ہی جانتا ہے بیاں کیا ہو جعفری
جیسے نبھائی دوستی ہے دوستوں کے ساتھ
مقصود جعفری
No comments:
Post a Comment