کڑوے ہو گئے سارے خواب
بھیگی آنکھ کے کھارے خواب
وقت کی آندھی میں دھندلائے
سارے رستے سارے خواب
کتنے غموں کا بوجھ اٹھائیں
آخر یہ بے چارے خواب
وقت نے کیسے منظر بدلا
مٹی ہو گئے سارے خواب
ایک طرف تھیں تعبیریں اور
دوجی جانب سارے خواب
تعبیروں کا رستہ دیکھیں
کب تک یہ دکھیارے خواب
آؤ کبھی یہ قصہ سننے
میں نے کیسے ہارے خواب
تم نے میری نیند اجاڑی
میں نے تم پر وارے خواب
کاش کبھی نا دھوکہ کھائیں
کچی عمریں پیارے خواب
نفرت کے اس شہر ِپناہ میں
جھوٹے ہو گئے سارے خواب
میں نے شعر کے ذیل میں لکھے
جگنو، تتلی، تارے خواب
باغ کی بینچ پہ رکھی آئی میں
اپنی آنکھ کے سارے خواب
عینی زا سید
No comments:
Post a Comment