پریشانی
وہ ضد پہ اڑ گئی تھی کہ جانا ہے اب مجھے
میں کوششوں میں تھا کہیں جانے نہ دوں اُسے
پر اُس نے سنی ایک نہ، اُٹھ کر لگی جانے
پھر میں نے بہت زور سے پکڑی جو کلائی
سب اُس کی حسیں چوڑیاں یوں ٹوٹ کے بکھریں
جیسے کوئی بادل گھنا ٹوٹ کے برسے
اُس کو بھی یاد ہو گا مجھے یاد ہے سب کچھ
اُس وقت تو وہ مجھ سے خفا ہو کے گئی تھی
خود اگلے ہی دن آ کے نگاہوں کو جھکا کر
بولی کہ نشاط اچھا اک بات کہوں میں
شب بھر میں بہت زیادہ پریشان رہی ہوں
یہ کہہ کے اُس نے ہاتھ مرا ہاتھ میں لے کر
نشاط عبیر
No comments:
Post a Comment