Saturday, 5 March 2022

دن کے برزخ سے شب نکالی ہے

 دن کے برزخ سے شب نکالی ہے

اس لیے ذہن خالی خالی ہے

آس کے نا مراد کوٹھے پر

صبح نیلام ہونے والی ہے

ارغوانی غبار کی تہہ سے

میری بے چہرگی مثالی ہے

میرے ماحول کو سمجھ، کہ یہاں

مسکرانا بھی ایک گالی ہے

اس قدر غور سے نہ دیکھ مجھے

یہ جو تصویر ہے خیالی ہے

تُو مجھے کس ڈگر پہ لے آیا

قہقہہ ہے نہ کوئی تالی ہے

اب میرا ہاتھ چھوڑ دے جاناں

میری تدفین ہونے والی ہے

شش جہت میں بکھر گیا ہوں شہیر

میری تقدیر بھی نرالی ہے


شہیر تہامی

No comments:

Post a Comment