دن کے برزخ سے شب نکالی ہے
اس لیے ذہن خالی خالی ہے
آس کے نا مراد کوٹھے پر
صبح نیلام ہونے والی ہے
ارغوانی غبار کی تہہ سے
میری بے چہرگی مثالی ہے
میرے ماحول کو سمجھ، کہ یہاں
مسکرانا بھی ایک گالی ہے
اس قدر غور سے نہ دیکھ مجھے
یہ جو تصویر ہے خیالی ہے
تُو مجھے کس ڈگر پہ لے آیا
قہقہہ ہے نہ کوئی تالی ہے
اب میرا ہاتھ چھوڑ دے جاناں
میری تدفین ہونے والی ہے
شش جہت میں بکھر گیا ہوں شہیر
میری تقدیر بھی نرالی ہے
شہیر تہامی
No comments:
Post a Comment