Sunday, 20 September 2015

ہوش دیوانے کو اپنے تن بدن کا خاک تھا

ہوش دیوانے کو اپنے تن بدن کا خاک تھا
آستِیں نکلی ہوئی تھی اور دامن چاک تھا
اک اشارے میں زمانے کو تہ و بالا کیا
کس بلا کا سحر تیری آنکھ میں سفاک تھا
اور میری جان لیوا کون تھا ہنگامِ دِید
یا نگاہِ ناز تھی، یا ابروئے سفاک تھا
تھی تیرے پامال کی اتنی حیاتِ مستعار
تُو اِدھر آیا، اُدھر وہ مِٹنے والا خاک تھا
جس نے دیکھا اک نظر تجھ کو وہ بیخود ہو گیا
جلوۂ بے پردہ تیرا کیا ہی حیرتناک تھا
میں وفورِ گریہ سے حالت نہ اپنی کہہ سکا
ترجمانِ حال میرا دِیدۂ نمناک تھا
احسن مرحوم سے ہم بھی مِلے تھے ایک دن
آدمی خوش وضع، خوش اوقات، خوش پوشاک تھا

احسن مارہروی

No comments:

Post a Comment