Wednesday 2 September 2015

ہے اسی میں پیار کی آبرو

 فلمی گیت


ہے اسی میں پیار کی آبرو وہ جفا کریں میں وفا کروں

جو وفا بھی کام نہ آ سکے تو وہی کہیں کہ میں کیا کروں


مجھے غم بھی ان کا عزیز ہے کہ انہی کی دی ہوئی چیز ہے

یہی غم ہے اب میری زندگی اسے کیسے دل سے جدا کروں

ہے اسی میں پیار کی آبرو


جو نہ بن سکے میں وہ بات ہوں جو نہ ختم ہو میں وہ رات ہوں

یہ لکھا ہے میرے نصیب میں یونہی شمع بن کے جلا کروں

ہے اسی میں پیار کی آبرو


نہ کسی کے دل کی ہوں آرزو نہ کسی نظر کی ہوں جستجو

میں وہ پھول ہوں جو اداس ہوں نہ بہار آئے تو کیا کروں

ہے اسی میں پیار کی آبرو


راجا مہدی علی خان

No comments:

Post a Comment