پی کر شرابِ عشق جو سرشار ہو گئے
بارِ غمِ جہاں سے سُبک سار ہو گئے
لب آشنا جو خواہشِ دیدار ہو گئی
پہلے سے بھی زیادہ وہ خوددار ہو گئے
راہِ طلب میں حدِ ادب سدِ راہ تھی
دنیا ہمارے حال کی جُویا ہے کس لیے
عُزلت گزیں ہوئے کہ گنہگار ہو گئے
پابندیوں کی حد ہی میں آزاد ہم ہیں رازؔ
آگے قدم بڑھا ۔۔ کہ گرفتار ہو گئے
سرور عالم راز
No comments:
Post a Comment