Saturday 16 January 2016

پی کر شراب عشق جو سرشار ہو گئے

پی کر شرابِ عشق جو سرشار ہو گئے
بارِ غمِ جہاں سے سُبک سار ہو گئے
لب آشنا جو خواہشِ دیدار ہو گئی
پہلے سے بھی زیادہ وہ خوددار ہو گئے
راہِ طلب میں حدِ ادب سدِ راہ تھی
آگے قدم بڑھانے سے ناچار ہو گئے
دنیا ہمارے حال کی جُویا ہے کس لیے
عُزلت گزیں ہوئے کہ گنہگار ہو گئے
پابندیوں کی حد ہی میں آزاد ہم ہیں رازؔ
آگے قدم بڑھا ۔۔ کہ گرفتار ہو گئے

سرور عالم راز

No comments:

Post a Comment