نیم خوابی کا فسوں ٹوٹ رہا ہو جیسے
آنکھ کا نیند سے دل چھوٹ رہا ہو جیسے
رنگ پھیلا تھا لہو میں، نہ ستارہ چمکا
اب کے ہر لمس تِرا جھوٹ رہا ہو جیسے
پھر شفق رنگ ہوئی کوچۂ جاناں کی زمیں
روشنی پائی نہیں، رات بھی باقی ہے ابھی
چاند سے ربط مگر ٹوٹ رہا ہو جیسے
سرخ بیلیں تو ستونوں میں چڑھی ہیں لیکن
کوئی آنگن کا سکوں لوٹ رہا ہو جیسے
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment