Saturday, 5 March 2016

نیم خوابی کا فسوں ٹوٹ رہا ہو جیسے

نیم خوابی کا فسوں ٹوٹ رہا ہو جیسے
آنکھ کا نیند سے دل چھوٹ رہا ہو جیسے
رنگ پھیلا تھا لہو میں، نہ ستارہ چمکا
اب کے ہر لمس تِرا جھوٹ رہا ہو جیسے
پھر شفق رنگ ہوئی کوچۂ جاناں کی زمیں
آبلہ پاؤں کا پھر پھوٹ رہا ہو جیسے
روشنی پائی نہیں، رات بھی باقی ہے ابھی
چاند سے ربط مگر ٹوٹ رہا ہو جیسے
سرخ بیلیں تو ستونوں میں چڑھی ہیں لیکن
کوئی آنگن کا سکوں لوٹ رہا ہو جیسے

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment