دل کی حالت ہے اضطرابی پھر
کوئی لائے گا یہ خرابی پھر
ایک مدت کے بعد خوابوں کا
پیرہن ہو گیا گلابی پھر
لے رہی ہے طویل رات کے بعد
دھیان کی رحل پہ بصد مفہوم
ایک چہرہ کھِلا کتابی پھر
کٹ ہی جائیگی شب کہ آنکھوں میں
ایک صورت ہے ماہتابی پھر
چھو رہی ہے ہوا مستانی
شجرِ جاں ہوا شہابی پھر
گر رہے ہیں تِرے خیال کے پھول
خوبصورت ہے فرشِ خوابی پھر
شرح آسودگی میں حائل ہے
معنئ غم کی دیریابی پھر
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment