وہ کون ہے مجھ پر جو تأسف نہیں کرتا
پر میرا جگر دیکھ کہ میں اف نہیں کرتا
کیا قہر ہے وقفہ ہے ابھی آنے میں ان کے
اور دم مِرا جانے میں توقف نہیں کرتا
دل فقر کی دولت سے مِرا اتنا غنی ہے
پڑھتا نہیں خط غیر مِرا واں کسی عنوان
جب تک کہ عبارت میں تصرف نہیں کرتا
اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے وہ ہے جو تکلف نہیں کرتا
ابراہیم ذوق
No comments:
Post a Comment