تِرے کوچے کو وہ بیمارِ غم دارالشفا سمجھے
اجل کو جو طبیب اور مرگ کو اپنی دوا سمجھے
ستم کو ہم کرم سمجھے،۔۔ جفا کو ہم وفا سمجھے
اور اس پر بھی نہ سمجھے وہ تو اس بت سے خدا سمجھے
تجھے اے سنگ دل آرامِ جانِ مبتلا سمجھے
نہ آیا خاک بھی رستہ سمجھ میں عمرِ رفتہ کا
مگر سمجھے تو داغِ معصیت کو نقشِ پا سمجھے
سمجھ میں ہی نہیں آتی ہے کوئی بات ذوقؔ اس کی
کوئی جانے تو کیا جانے، کوئی سمجھے تو کیا سمجھے
ابراہیم ذوق
No comments:
Post a Comment