فیصلہ اس نے سنایا بھی نہیں تعزیر کا
پڑ گیا ہے دل پہ پہلے ہی نشاں زنجیر کا
خط چھپاؤں کس طرح سے محرمِ دلگیر سے
لفظ ہر اک بولتا ہے پیار کی تحریر کا
باقی سارے خط پہ دھبے آنسوؤں کے رہ گئے
تیرے چہرے کا تاثر، تیری آنکھوں کا خمار
حسن ایسا تو نہیں ہے وادئ کشمیر کا
موتیوں جیسے ہیں آنسو، پھول جیسی ہے ہنسی
کون سا رخ سامنے رکھوں تِری تصویر کا
کوئی کہتا ہے ملیں گے، کوئی کہتا ہے نہیں
کچھ پتا چلتا نہیں ہے خواب کی تعبیر کا
جو نصیبوں میں نہیں ہے، وہ ذرا لے لوں عدیمؔ
وہ تو مل ہی جائے گا حصہ ہے جو تقدیر کا
دوستوں سے بھی تعلق بن گیا ہے وہ عدیمؔ
جو تعلق ہے کسی شمشیر سے شمشیر کا
عدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment