Tuesday, 15 March 2016

میں بہہ رہا تھا کسی بحر بے خبر کی طرح

میں بہہ رہا تھا کسی بحرِ بے خبر کی طرح
وہ رقص کرتا ہوا آ گیا بھنور کی طرح
ہر اک لکیر ہے ہاتھوں پہ رہگزر کی طرح
یونہی تو عمر نہیں کٹ رہی سفر کی طرح
یونہی تو لوگ نہیں ڈوبتے ہیں مٹی میں
زمیں جو گھوم رہی ہے کسی بھنور کی طرح
شبِ جدائی اگر تُو ہے عمر میں شامل
تو پھر گزر بھی کسی عمرِ مختصر کی طرح
یہ اس کی یاد کے آنسو ہیں، جان لیتا ہوں
پلک پلک چمک اٹھتی ہے جب گہر کی طرح
کئی دنوں سے چمکتا ہے آسمان بہت
بھڑک اٹھے نہ کہیں یہ کسی شرر کی طرح
وہ روئے یا وہ ہنسے، اک چمک سی رہتی ہے
کبھی گہر کی طرح اور کبھی سحر کی طرح
وہ آئے تو کبھی آمد چھپی نہیں اس کی
وہ پھیلتا ہے بھرے شہر میں خبر کی طرح
عدیمؔ آب و ہوا بھی عجیب جادو ہے
کبھی شجر کی طرح ہے کبھی ثمر کی طرح
بچھڑ کے وہ تو نہ رویا، جو میں نے ہار دیا
وہ ہار ٹوٹ کے بکھرا ہے چشمِ تر کی طرح
صفات اس میں تضادات سے مرصع ہیں
گداز شب کی طرح ہے، چمک سحر کی طرح
عدیمؔ اس نے لکھا خط حنائی ہاتھوں سے
ہر ایک لفظ بھڑکنے لگا شرر کی طرح

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment