Tuesday 15 March 2016

سرخی وصل پس دیدۂ تر پانی میں

سرخئ وصل پسِ دیدۂ تر پانی میں
کہاں دیکھے تھے عدیمؔ اتنے شرر پانی میں
تِری یادیں پسِ بادیدۂ تر پانی میں
کون کہتا ہے کہ بنتے نہیں گھر پانی میں
ڈوبتے یوں ہی نہیں دیدۂ تر پانی میں
یہی آنسو ہیں جو بنتے ہیں گہر پانی میں
پوچھ آہوں سے، ہواؤں میں تپش کیسی ہے
آنسوؤں نے تو کِیا سارا سفر پانی میں
کیا خبر تھی تِری آنکھوں میں بھی دل ڈوبے گا
میں تو سمجھا تھا کہ پڑتے ہیں بھنور پانی میں
کشتئ دل نے کِیا رقص بڑی دیر کے بعد
دیر کے بعد ہی ناچے ہیں بھنور پانی میں
اشک پلکوں پہ جو ٹھہرے ہیں تو حیرت کیسی
ساحلی لوگ بنا لیتے ہیں گھر پانی میں
آب دیدہ سی ملاقات ہوئی ہے تجھ سے
عکس آیا ہے تِرا مجھ کو نظر پانی میں
لمس تالاب میں ہاتھوں کا قیامت نکلا
آگ سے بڑھ کے ہُوا اس کا اثر پانی میں
دل کے دریا میں لگایا تھا تمنا کا شجر
گر کے بہتا ہی رہا سارا ثمر پانی میں
فرق اتنا سا ہے اس شخص میں اور مجھ میں عدیمؔ
وہ کنارے پہ اُدھر، میں ہوں اِدھر پانی میں​

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment