Friday, 11 March 2016

سیکڑوں خوف مرے دل میں جڑے ہیں صاحب

سیکڑوں خوف مِرے دل میں جڑے ہیں صاحب
مِرے ڈر میرے رگ و پے میں گڑے ہیں صاحب
اِس برس ہم کو ستایا ہے زمانے نے بہت
سارے موسم تِرے ہجراں سے کڑے ہیں صاحب
آج پوچھے نہ کوئی صبر کے معنی ہم سے
آج ہم آخری منزل پہ کھڑے ہیں صاحب
تُو سنا فیصلہ تو آنکھ میں بھر لوں ان کو
شب کی دہلیز پہ کچھ خواب پڑے ہیں صاحب
کب یہ کہسار ہیں اونچے مِرے آدرشوں سے
کب سمندر مِرے خوابوں سے بڑے ہیں صاحب
پھر نہ چہرہ تِری آواز کا دیکھیں گے کبھی
ضد ہے تیری تو یہاں ہم بھی اڑے ہیں صاحب
تیرے لفظوں کے مہ و انجم و افلاک گواہ
سب ابھی تک یونہی حیران کھڑے ہیں صاحب

عنبرین صلاح الدین

No comments:

Post a Comment