Friday 11 March 2016

سانس بھر کے لیے مل پائی رسائی مجھ کو

سانس بھر کے لیے مل پائی رسائی مجھ کو
پھر اسی شہر میں تقدیر ہے لائی مجھ کو
میں تِری قبر کی مٹی ہی جو چھونے پاتی
عمر بھر کے لیے کافی تھی کمائی مجھ کو
تُو یہیں ایسے ہی رستوں میں چلا کرتی تھی
تیری آہٹ مِری آنکھوں نے دکھائی مجھ کو
میرے ہونے کے کسی پل میں تِرا کھو جانا
ہائے کیوں بات یہ لوگوں نے بتائی مجھ کو
میری نیندوں کے تسلسل میں خلل ڈالتی ہے
ایک لوری جو نہیں تُو نے سنائی مجھ کو
تیری آغوش میں سر رکھتی، بہاتی آنسو
مل ہی جاتی مِرے دکھ سے یوں رہائی مجھ کو
لیے پھرتی ہے مجھے دشت نوردی میری
راس آتی ہے یہی آبلہ پائی مجھ کو

عنبرین صلاح الدین

No comments:

Post a Comment