سانس بھر کے لیے مل پائی رسائی مجھ کو
پھر اسی شہر میں تقدیر ہے لائی مجھ کو
میں تِری قبر کی مٹی ہی جو چھونے پاتی
عمر بھر کے لیے کافی تھی کمائی مجھ کو
تُو یہیں ایسے ہی رستوں میں چلا کرتی تھی
میرے ہونے کے کسی پل میں تِرا کھو جانا
ہائے کیوں بات یہ لوگوں نے بتائی مجھ کو
میری نیندوں کے تسلسل میں خلل ڈالتی ہے
ایک لوری جو نہیں تُو نے سنائی مجھ کو
تیری آغوش میں سر رکھتی، بہاتی آنسو
مل ہی جاتی مِرے دکھ سے یوں رہائی مجھ کو
لیے پھرتی ہے مجھے دشت نوردی میری
راس آتی ہے یہی آبلہ پائی مجھ کو
عنبرین صلاح الدین
No comments:
Post a Comment