ہوتا ہے سوزِ عشق سے جل جل کے دل تمام
کرتی ہے روح، مرحلۂ آب و گِل تمام
حقا کے عشق رکھتے ہیں تجھ سے حسینِ دہر
دم بھرتے ہیں تِرا بتِ چین و چگِل تمام
ٹپکاتے زخمِ ہجر پر اے ترک، کیا کریں
دیکھا ہے جب تجھے عرق آ آ گیا ہے یار
غیرت سے ہو گئے ہیں حسیں منفعل تمام
عشق بتاں کا روگ نہ اے دل لگا مجھے
تھکوا کے خون کرتا ہے آزارِ سِل تمام
قدسی بھی کشتہ ہیں تِری شمشیرِ ناز کے
مارے پڑے ہیں متصل و منفعل تمام
دردِ فراقِ یار سے، کہتا ہے بند بند
اعضا ہمارے ہو گئے ہیں مضمحل تمام
ساری عدالت الفتِ صادق کی ہے گواہ
مہروں سے ہے لپی ہوئی اپنی سجل تمام
کرتے ہیں غیر یار سے میرا بیانِ حال
الفت سے ہو گئے ہیں موافق مخل تمام
تیرِ نگاہ ناز کا رہتا ہے سامنا
چھلنی ہوا ہے سینہ، مشبک ہے دل تمام
ہوتا ہے پردہ فاش، کلامِ دروغ کا
وعدے کا دِن سمجھ لے وہ، پیماں گسِل تمام
خلوت میں ساتھ یار کے جانا نہ تھا تمہیں
اربابِ انجمن ہوئے آتش خجل تمام
خواجہ حیدرعلی آتش
No comments:
Post a Comment