Tuesday, 15 March 2016

خواہاں ترے ہر رنگ میں اے یار ہمیں تھے

 خواہاں تِرے ہر رنگ میں اے یار ہمِیں تھے
یوسفؑ تھا اگرتُو، تو خریدار ہمیں تھے
بے داد کی محفل میں سزاوار ہمیں تھے
تقصیر کسی کی ہو، گنہگار ہمیں تھے
وعدہ ہمیں سے لبِ بام آنے کا ہوتا
سایہ کی طرح سے پسِ دیوار ہمیں تھے
کنگھی تِری زلفوں کی ہمیں پر تھی مقرر
آئینہ دکھاتے تجھے ہر بار ہمیں تھے
نعمت تھی تِرے حسن کی حصہ میں ہمارے
تُو کانِ ملاحت تھا، خریدار ہمیں تھے
سودا زدہ زلفوں کا نہ تھا اپنے سوا ایک
آزاد دو عالم تھا، گرفتار ہمیں تھے
تُو اور ہم اے دوست تھے یک جان دو قالب
تھا غیر سوا اپنے  جو تھا یار ہمیں تھے
بیمارِ محبت تھا سوا اپنے نہ کوئی
اک مستحقِ شربتِ دیدار ہمیں تھے
بے اپنے بہلتی تھی طبیعت نہ کسی کی
دل سوز ہمیں تھے تِرے غمخوار ہمیں تھے
اک جنبشِ مژگاں سے غش آتا تھا ہمیں کو
دو نرگسِ بیمار کے بیمار ہمیں تھے
جب چاہتے تھے لیتے تھے آغوش میں تم کو
مجبور سے رہ جاتے تھے مختار ہمیں تھے
ہم سا نہ کوئی چاہنے والا تھا تمہارا
مرتے تھے ہمیں جان سے بیزار ہمیں تھے
بدنام محبت نے تِری ہم کو کیا تھا
رسوائے سرِ کوچہ و بازار یمیں تھے
دل ٹھوکریں کھاتا تھا نہ ہر گام کسی کا
اک خاک میں ملتے دمِ رفتار ہمیں تھے
بھڑکانے سے آتشؔ کو جلانے لگے یا تو
الطاف و عنایت کے سزاوار ہمیں تھے

خواجہ حیدرعلی آتش

No comments:

Post a Comment