دل عبادت سے چرانا اور جنت کی طلب
کام چور اس کام پر کس منہ سے اجرت کی طلب
حشر تک دل میں رہے اس سروقامت کی طلب
یہ طلب ہے اپنی یارب کس قیامت کی طلب
دل سلگ جائے نہ جب تک اور بھڑک جائے نہ جہاں
واسطے نظارۂ قاتل کے فرصت چاہیئے
اور یہاں فرصت کہاں جو کیجیے فرصت کی طلب
ہو مبارک خضرؑ کو سر چشمۂ آبِ بقا
ہے ہمیں آب دم تیغ شہادت کی طلب
بڑھ گئی ہے عشق میں حرص اس قدر اپنی کہ
غم پہ غم کی آرزو حسرت پہ حسرت کی طلب
جو حلاوت زندگی کی چاہتا ہے چرخ سے
کاسۂ زہر اب سے کرتا ہے شربت کی طلب
ہو کے دل غمزہ کا بسملِ ناز پر دیتا ہے دم
کرتا ہے آفت طلب آفت پہ آفت کی طلب
یاد ہیں صلب و شکم کی پہلی دونوں منزلیں
یاں کہاں وسعت کہ تُو کرتا ہے راحت کی طلب
گر گلستاں جہاں میں تنگ ہے تو غنچہ وار
کر کشادہ دل سے اپنے ذوقِ وسعت کی طلب
ابراہیم ذوق
No comments:
Post a Comment