Tuesday, 15 March 2016

دل عبادت سے چرانا اور جنت کی طلب

دل عبادت سے چرانا اور جنت کی طلب
کام چور اس کام پر کس منہ سے اجرت کی طلب
حشر تک دل میں رہے اس سروقامت کی طلب
یہ طلب ہے اپنی یارب کس قیامت کی طلب
دل سلگ جائے نہ جب تک اور بھڑک جائے نہ جہاں
کم نہ ہو قلیاں کش سوزِ محبت کی طلب
واسطے نظارۂ قاتل کے فرصت چاہیئے
اور یہاں فرصت کہاں جو کیجیے فرصت کی طلب
ہو مبارک خضرؑ کو سر چشمۂ آبِ بقا
ہے ہمیں آب دم تیغ شہادت کی طلب
بڑھ گئی ہے عشق میں حرص اس قدر اپنی کہ
غم پہ غم کی آرزو حسرت پہ حسرت کی طلب
جو حلاوت زندگی کی چاہتا ہے چرخ سے
کاسۂ زہر اب سے کرتا ہے شربت کی طلب
ہو کے دل غمزہ کا بسملِ ناز پر دیتا ہے دم
کرتا ہے آفت طلب آفت پہ آفت کی طلب
یاد ہیں صلب و شکم کی پہلی دونوں منزلیں
یاں کہاں وسعت کہ تُو کرتا ہے راحت کی طلب
گر گلستاں جہاں میں تنگ ہے تو غنچہ وار
کر کشادہ دل سے اپنے ذوقِ وسعت کی طلب

ابراہیم ذوق

No comments:

Post a Comment