رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو
ناخن نہ دے خدا تجھے اے پنجۂ جنوں
دے گا تمام عقل کے بخیے ادھیڑ تُو
اس صیدِ مضطرب کو تحمل سے ذبح کر
چھٹتا ہے کون مر کے گرفتارِ دامِ زلف
تربت پہ اس کی جال کا پائے گا پیڑ تُو
اے زاہدِ دو رنگ نہ پیر آپ کو بنا
مانندِ صبحِ کاذب ابھی ہے ادھیڑ تُو
یہ تنگ نائے دہر نہیں منزلِ فراغ
غافل نہ پاؤں حرص کے پھیلا، سکیڑ تُو
ہو قطعِ نخلِ الفت اگر، پھر بھی سبز ہو
کیا ہو جو پھینکے جڑ ہی سے، اس کو اکھیڑ تُو
جو سوتی بھیڑ باعثِ غوغا جگائے پھر
دروازہ گھر کا اس سگِ دنیا پہ بھیڑ تُو
عمرِ رواں کا توسنِ چالاک اس لیے
تجھ کو دیا کہ جلد کرے یاں سے ایڑ تو
آوارگی سے کوئے محبت کی ہاتھ اٹھا
اے ذوقؔ یہ اٹھا نہ سکے گا کھکھیڑ تُو
ابراہیم ذوق
No comments:
Post a Comment