Thursday 10 March 2016

مرجھانے لگی ہیں پھر خراشیں

مرجھانے لگی ہیں پھر خراشیں
آؤ، کوئی زخم گر تلاشیں
ملبوس ہیں کہ نیلی طشتری میں
رقصاں ہیں سفیدیوں کی قاشیں
پیڑوں کی قبا ہی تھی قیامت
اور اس پہ بہار کی تراشیں
تاروں کی تو چال اور ہی تھی
جیتا کیے ہم اگرچہ تاشیں
اہرام ہے یا کہ شہر میرا
انسان ہیں یا حنوط لاشیں
سڑکوں پہ رواں یہ آدمی ہیں
یا نیند میں چل رہی ہیں لاشیں

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment