اس کے دھیان کی دل میں پیاس جگا لی جائے
ایک بھی شام نہ پھر اس نام سے خالی جائے
آنکھوں میں کاجل کی پرت جما لی جائے
سکھیوں سے یوں پریت کی جوت چھپا لی جائے
ریت ہے، سورج ہے، وسعت ہے، تنہائی ہے
آنکھوں میں بھر کر اس دشت کی حیرانی کو
وحشت کی عمدہ تصویر بنا لی جائے
آپ نے پہلے بھی تو مجھ کو دیکھا ہو گا
آپ کے منہ سے آپ کی بات چرا لی جائے
سوچوں میں جب پڑنے لگ جائیں گرداب
آنکھوں سے پھر آٹھ پہر نہ لالی جائے
دل آزاری کی مٹی سے اِستادہ گھر
ان بے فیض دروں تک کون سوالی جائے
عنبرین صلاح الدین
No comments:
Post a Comment