آنکھوں کے لیے جشن کا پیغام تو آیا
تاخیر سے ہی چاند لبِ بام تو آیا
اس باغ میں اک پھول کھِلا میرے لیے بھی
خوشبو کی کہانی میں مِرا نام بھی تو آیا
پت جھڑ کا زمانہ تھا تو یہ بخت ہمارا
اڑ جائیگا پھر اپنی ہواؤں میں تو کیا غم
وہ طائرِ خوش رنگ تہِ دام تو آیا
ہر چند کہ کم عرصۂ زیبائی میں ٹھہرا
ہر چہرۂ گل باغ کے کچھ کام تو آیا
جب دور تھے ہم نظمِ گلستاں سے تو خوش تھے
تحسین بھی جاتی رہی، انعام تو آیا
واضح تو ہوا ترکِ محبت کا ارادہ
بارے دلِ آشفتہ کو آرام تو آیا
شب سے بھی گزر جائیں گے گر تیری رضا
دورانِ سفر مرحلۂ شام تو آیا
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment