Monday, 14 March 2016

گونگے لبوں پہ حرف تمنا کیا مجھے

گونگے لبوں پہ حرفِ تمنا کیا مجھے
کس کور چشم شب میں ستارا کیا مجھے
زخمِ ہنر کو سمجھے ہوئے ہے گل ہنر
کس شہرِ ناسپاس میں پیدا کیا مجھے
جب حرف ناشناس یہاں لفظ فہم ہیں
کیوں ذوقِ شعر دے کے تماشا کیا مجھے
خوشبو ہے، چاندنی ہے، لبِ جُو ہے اور میں
کس بے پناہ رات میں تنہا کیا مجھے
دی تشنگی خدا نے تو چشمے بھی دے دیے
سینے میں دشت آنکھوں میں دریا کیا مجھے
میں یوں سنبھل گئی کہ تِری بیوفائی نے
بے اعتباریوں سے شناسا کیا مجھے
وہ اپنی ایک ذات میں کل کائنات تھا
دنیا کے ہر فریب سے ملوا دیا مجھے
اوروں کے ساتھ میرا تعارف بھی جب ہوا
ہاتھوں میں ہاتھ لے کے وہ سوچا کیا مجھے
بیتے دنوں کا عکس نہ آیندہ کا خیال
بس خالی خالی آنکھوں سے کوئ دیکھا کیا مجھے

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment