Monday, 14 March 2016

پہنچے جو سر عرش تو نادار بہت تھے

پہنچے جو سرِ عرش تو نادار بہت تھے
دنیا کی محبت میں گرفتار بہت تھے
گھر ڈوب گیا اور انہیں آواز نہیں دی
حالانکہ مِرے سلسلے اس پار بہت تھے
چھت پڑنے کا وقت آیا تو کوئی نہیں آیا
دیوار گِرانے کو رضاکار بہت تھے
گھر تیرا دکھائی تو دیا دور سے، لیکن
رستے تِری بستی کے پراسرار بہت تھے
ہنستی ہوئی آنکھوں کا نگر کہتے رہے ہم
جس شہر میں نوحے پسِ دیوار بہت تھے
یہ بے رخی اک روز تو مقسوم تھی اپنی
ہم تیری توجہ کے طلب گار بہت تھے
آسائشِ دنیا کا فسوں اپنی جگہ ہے
اس سکھ میں مگر روح کے آزار بہت تھے

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment