اپنی تقدیر کو پیٹے جو پریشاں ہے کوئی
آپ کے بس میں علاجِ غمِ دوراں ہے کوئی
ٹوکیے اس کو جو اس وقت غزلخواں ہے کوئی
جیل میں نغمہ سرائی کا بھی امکاں ہے کوئی
اپنی مرضی سے تو اگتے نہیں خودرَو پودے
کیا یہ ممکن ہے گلستاں میں نہ آئے کبھی رات
گل رہیں، خار نکل جائیں یہ آساں ہے کوئی
زرد چہروں کو تبسم نے کیا ہے رسوا
ورنہ ظاہر بھی نہ ہوتا کہ پریشاں ہے کوئی
حرصِ دربان کو آقا کا مصاحب سمجھے
صبر آقا کو سمجھتا ہے کہ درباں ہے کوئی
راس آتی ہے غریبوں کو کہیں آزادی
خاک بر سر ہے کوئی چاک گریباں ہے کوئی
نہ تو شرمندہ نگاہیں نہ جبیں پر شبنم
آپ کس طرح یہ کہتے ہیں پشیماں ہے کوئی
چاپ سن کر جو ہٹا دی تھی اٹھا لا ساقی
شیخ صاحب ہیں، میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی
مجھ سے کافر کے یہاں شادؔ مکمل سرقہ
عسسِ شہر بڑا صاحبِ ایماں ہے کوئی
شاد عارفی
No comments:
Post a Comment