مشکل سے اس بت کی قسمیں
دو سچی ہوتی ہیں دس میں
کاش مِرا دل بس میں ہوتا
ورنہ اس محفل کی رسمیں
اس کافر پر آئی جوانی
ان پہروں سے کیا ہوتا ہے
پھول نہیں کانٹوں کے بس میں
وعدے پر مجبور نہیں تم
کیوں کھاتے ہو جھوٹی قسمیں
اک بھینی بے نام سی خوشبو
شامل ہے ہونٹوں کے رس میں
خنجر سے شمشیر بنے گا
وہ ظالم دو چار برس میں
لڑنے کا الزام نہ دیجے
نظریں ملتی ہیں آپس میں
وقت انہیں جھٹلا دیتا ہے
سب کھاتے ہیں جھوٹی قسمیں
شادؔ بڑے شاعر کھاتے ہیں
اِس کا جھوٹا، اُس کی قسمیں
شاد عارفی
No comments:
Post a Comment