Monday, 14 March 2016

راحت ملی نہ کاوش عزم سفر گئی

راحت ملی نہ کاوشِ عزمِ سفر گئی
منزل اگر یہی ہے تو دل سے اتر گئی
دشمن چھپے ہوئے ہیں جہاں تاک میں وہاں
میری نظر گئی نہ تمہاری نطر گئی
ممنونِ زلفِ دوست ہے بزمِ خیالِ یار
چاہا سنور گئی جو نہ چاہا بکھر گئی
بے ساختہ گمان کسی کی طرف گیا
جب گدگدا کے نسیمِ سحر گئی
تجھ بِن مِرا مذاق اڑانے کے واسطے
ہر مہ جبیں نقاب اٹھا کر ٹھہر گئی
یہ اشک آرزو میں بہیں گے اسے طرح
ایسی ندی نہیں جو چڑھی اور اتر گئی
اے شادؔ مجھ کو حبِ وطن کے لحاظ سے
کہنا پڑے گا کہ اچھی گزر گئی

شاد عارفی

No comments:

Post a Comment