Friday, 11 March 2016

ہم پہ وہ کب نگاہ کرتے تھے

ہم پہ وہ کب نگاہ کرتے تھے
اک ہمیں ان کی چاہ کرتے تھے
ہم تو بس ان کی چاہ  کرتے تھے
اور وہ ہم کو تباہ کرتے تھے
ان کی زلفوں کی یاد میں شب کو
دل جلا کر سیاہ کرتے تھے
گاہ چپکے گزارتے تھے رات
گاہ روتے تھے آہ کرتے تھے
اس کے گھر کے کئی کئی پھیرے
یونہی شام و پگاہ کرتے تھے
اور ہونگے کوئ کہ تجھ کو چھوڑ
ہوسِ عز و جاہ کرتے تھے
سوچتا ہوں یہی کہ اس دل میں
گیر کس طرح راہ کرتے تھے
چغلیاں کھا کے میری ان سے رقیب
اپنا نامہ سیاہ کرتے تھے
ہم لہو آنکھ سے بہاتے تھے
وہ نہ ہم پر نگاہ کرتے تھے
داورِ حشر سے یہ کہہ دیں گے
ہم جہاں میں گناہ کرتے تھے
اب تو ہر شے سے بے نیازی ہے
دن گئے جب کہ چاہ  کرتے تھے
شعر کہتے تھے اپنے میراؔ جی
لوگ سنتے تھے آہ کرتے تھے

میرا جی

No comments:

Post a Comment