ہم پہ وہ کب نگاہ کرتے تھے
اک ہمیں ان کی چاہ کرتے تھے
ہم تو بس ان کی چاہ کرتے تھے
اور وہ ہم کو تباہ کرتے تھے
ان کی زلفوں کی یاد میں شب کو
گاہ چپکے گزارتے تھے رات
گاہ روتے تھے آہ کرتے تھے
اس کے گھر کے کئی کئی پھیرے
یونہی شام و پگاہ کرتے تھے
اور ہونگے کوئ کہ تجھ کو چھوڑ
ہوسِ عز و جاہ کرتے تھے
سوچتا ہوں یہی کہ اس دل میں
گیر کس طرح راہ کرتے تھے
چغلیاں کھا کے میری ان سے رقیب
اپنا نامہ سیاہ کرتے تھے
ہم لہو آنکھ سے بہاتے تھے
وہ نہ ہم پر نگاہ کرتے تھے
داورِ حشر سے یہ کہہ دیں گے
ہم جہاں میں گناہ کرتے تھے
اب تو ہر شے سے بے نیازی ہے
دن گئے جب کہ چاہ کرتے تھے
شعر کہتے تھے اپنے میراؔ جی
لوگ سنتے تھے آہ کرتے تھے
میرا جی
No comments:
Post a Comment