مرتے ہیں تِرے پیار سے ہم اور زیادہ
تُو لطف میں کرتا ہے ستم اور زیادہ
گھبرانا جو یاد آیا تِرا ہو کے ہم آغوش
گھبرانے لگا سینہ میں دم اور زیادہ
تیز اس نے جو کی تیغِ ستم اور زیادہ
وہ دل کو چرا کے جو لگے آنکھ چرانے
یاروں کا گیا ان پہ بھرم اور زیادہ
کرتی ہے مِری خاک جلا کر مجھے پامال
کیونکر نہ اٹھاوے وہ قدم اور زیادہ
آخر مئے عشق آنکھوں سےٹپکائی کس نے
بھڑکے ہے جو یوں آتشِ غم اور زیادہ
کیا ہووے گا دو چار قدح سے مجھے ساقی
میں لوں گا تِرے سر کی قسم اور زیادہ
کیوں میں نے کہا تجھ سا خدائی میں نہیں اور
مغرور ہوا اب وہ صنم، اور زیادہ
جو کنجِ قناعت میں ہیں تقدیر پہ شاکر
ہے ذوقؔ برابر انہیں کم اور زیادہ
ابراہیم ذوق
No comments:
Post a Comment