ابھی تو دل میں ہے جو کچھ بیان کرنا ہے
یہ بعد میں سہی کس بات سے مکرنا ہے
تو میرے ساتھ کہاں تک چلے گا میرے غزال
میں راستہ ہوں مجھے شہر سے گزرنا ہے
کنار آب میں کب تک گنوں گا لہروں کو
ابھی تو میں نے ہواؤں میں رنگ بھرنے ہیں
ابھی تو میں نے افق در افق بکھرنا ہے
دلیر ہیں کہ ابھی دوستوں میں بیٹھے ہیں
گھروں کو جاتے ہوئے سائے سے بھی ڈرنا ہے
میں منتظر ہوں کسی ہاتھ کا بنایا ہوا
کہ اس نے مجھ میں ابھی اور رنگ بھرنا ہے
ہزار صدیوں کی روندی ہوئی زمیں ہے نسیم
نہیں ہوں میں کہ جسے پہلا پاؤں دھرنا ہے
افتخار نسیم افتی
No comments:
Post a Comment