Thursday, 5 May 2016

نہ صبا کی دوستی ہے نہ فضا کی ہمدمی ہے

نہ صبا کی دوستی ہے نہ فضا کی ہمدمی ہے
جہاں پھول کِھل رہے تھے وہاں دھول اب جمی ہے
ہوئے ہم قریب لیکن،۔ ہیں نصیب اپنے اپنے
تیرے لب پہ مسکراہٹ، مِری آنکھ میں نمی ہے
تجھے پا لیا ہے میں نے مگر اب بھی سوچتی ہوں
میری زندگی میں شاید کسی چیز کی کمی ہے
وہ سرور اول اول،۔ یہ غرور آخر آخر
وہ کرم بھی تھا ضروری، یہ ستم بھی لازمی ہے
میری چشمِ تر پہ بسمل، نہ رکھو تم اپنا دامن
یہ گھٹا برسنے والی، کہیں اس طرح تھمی ہے

بسمل صابری

No comments:

Post a Comment