طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
چل دیئے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں
ہو گیا خالی نگر بلوائیوں کے خوف سے
آنگنوں میں گھومتی پھرتی ہوائیں رہ گئیں
درمیاں تو جو بھی کچھ تھا اس کو وسعت کھا گئی
شب گئے پھرتی ہیں غازہ مَل کے بوڑھی خواہشیں
شہر کی سڑکوں پہ اب تو بیسوائیں رہ گئیں
کھولتا ہوں یاد کا در اسمِ اعظم پھونک کر
اس کھنڈر میں جانے اب کتنی بلائیں رہ گئیں
زندگی چلتی ہے کیسے ناز نخرے سے نسیمؔ
اس طوائف میں وہی پہلی ادائیں رہ گئیں
افتخار نسیم افتی
No comments:
Post a Comment