Thursday 5 May 2016

طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں

طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
چل دیئے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں
ہو گیا خالی نگر بلوائیوں کے خوف سے
آنگنوں میں گھومتی پھرتی ہوائیں رہ گئیں
درمیاں تو جو بھی کچھ تھا اس کو وسعت کھا گئی
ہر طرف ارض و سما میں انتہائیں رہ گئیں
شب گئے پھرتی ہیں غازہ مَل کے بوڑھی خواہشیں
شہر کی سڑکوں پہ اب تو بیسوائیں رہ گئیں
کھولتا ہوں یاد کا در اسمِ اعظم پھونک کر
اس کھنڈر میں جانے اب کتنی بلائیں رہ گئیں
زندگی چلتی ہے کیسے ناز نخرے سے نسیمؔ
اس طوائف میں وہی پہلی ادائیں رہ گئیں

افتخار نسیم افتی

No comments:

Post a Comment