Thursday 5 May 2016

لکھ کر ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے

لکھ کر ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے
کچھ لفظ ہیں ایسے جو پرانے نہیں ہوتے
جب چاہے کوئی پھونک دے خوابوں کے نشیمن
آنکھوں کے اجڑنے کے زمانے نہیں ہوتے
جو زخم عزیزوں نے محبت سے دئیے ہوں
وہ زخم زمانے کو دِکھانے نہیں ہوتے
ہو جائے جہاں شام وہیں ان کا بسیرا
آوارہ پرندوں کے ٹھکانے نہیں ہوتے
بے وجہ تعلق، کوئی بے نام رفاقت
جینے کے لیے کم یہ بہانے نہیں ہوتے
کہنے کو تو اس شہر میں کچھ بھی نہیں بدلا
موسم مگر اب اتنے سہانے نہیں ہوتے
سینے میں کسک بن کے بسے رہتے ہیں برسوں
لمحے کہ پلٹ کر کبھی آنے نہیں ہوتے
آشفتہ سری میں ہنرِ حرف و نوا کیا
لفظوں میں بیاں غم کے فسانے نہیں ہوتے
مخمورؔ یہ اب کیا ہے کہ بارِ غمِ دل سے
بوجھل مِرے احساس کے شانے نہیں ہوتے

مخمور سعیدی

No comments:

Post a Comment